جمع و تدوین قرآن PDF

Summary

This document outlines the historical process of collecting and organizing the Quran. It describes the methods used for preservation during the time of the Prophet Muhammad and the subsequent caliphs, highlighting the importance of memorization and written records in safeguarding the text.

Full Transcript

# جمع اور تدوین کا مفہوم: ## جمع اور تدوین قرآن یہ جاننا کہ قرآن مجید کن کن مرحلوں سے گزر کر ایک مرتب کتابی صورت میں سامنے آیا اس علم کو جمع اور تدوین قرآن کہتے ہیں۔ جمع کے معنی جمع کرنے اور تدوین کے معنی "مرتب کرنے" کے ہیں۔ قرآن کے جمع اور تدوین کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی مراحل سے گزر کر ایک مرتب اور...

# جمع اور تدوین کا مفہوم: ## جمع اور تدوین قرآن یہ جاننا کہ قرآن مجید کن کن مرحلوں سے گزر کر ایک مرتب کتابی صورت میں سامنے آیا اس علم کو جمع اور تدوین قرآن کہتے ہیں۔ جمع کے معنی جمع کرنے اور تدوین کے معنی "مرتب کرنے" کے ہیں۔ قرآن کے جمع اور تدوین کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی مراحل سے گزر کر ایک مرتب اور مکمل کتابی صورت (مصحف) میں ہمارے سامنے آیا۔ ## جمع اور تدوین قرآن کا مقصد جمع اور تدوین قرآن کا مقصد قرآن کی حفاظت کرنا تھا تا کہ جس طرح قرآن نازل ہوا ہے اُسی طرح من و عن (سارے کا سارا) ایک کتاب کی صورت میں امت کے پاس پہنچ جائے تا کہ اس کے الفاظ ترتیب اور زبان میں کسی قسم کا اختلاف پیدا نہ ہو۔ ## اللہ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے ویسے اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ: `` إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ ) ( الحجر (9) `` (بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔) دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ قرآن کا جمع کرنا اور اُس کو کھول کر بیان کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے۔ `` إِنَّا عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ، فَإِذَا قَرَانَهُ فَاتَّبِعُ قُرْآنَهُ ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بيانه . (القيامة 17 تا 19) `` (بے شک ہماری ذمہ داری ہے اس قرآن کو جمع کرنے کی اور اس کو پڑھ کر سنانے کی۔ پھر جب ہم اس کو پڑھ کر سنائیں تو آپ اس تلاوت کی پیروی کریں۔ پھر اسے کھول کر بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔) ## حضور کے قرآن حفظ کرنے کی طرف اشارہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن حفظ کرنے کی طرف درج ذیل آیات میں اشارہ کیا گیا ہے: `` لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ . )17 انقیامه 16 تا `` (اے نبی! آپ اس کو جلد سیکھنے کے لیے اپنی زبان کو تیز حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھ کر سنانا ہماری ذمہ داری ہے۔) ## صحابہ کرام نے بھی قرآن حفظ کر لیا حضور کے علاوہ صحابہ کرام نے بھی آپ سے قرآن سیکھ کر اُسے حفظ کر لیا۔ ایسے صحابہ کرام کی تعداد سینکڑوں میں تھی جنہوں نے قرآن حفظ کیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی مشیت سے قرآن کی حفاظت مختلف طریقوں سے فرمائی ہے۔ ## عہد نبوی میں قرآن کی حفاظت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی حفاظت کا دو طریقوں سے انتظام فرمایا۔ - اسے حفظ کے ذریعے محفوظ کر لیا جائے۔ - اسے تحریر کے ذریعے محفوظ کیا جائے۔ ## قرآن کی حفاظت کے ذریعے اہل عرب غیر معمولی حافظے کے مالک تھے۔ وہ اپنے اپنے قبیلے کا شجرہ نسب یاد رکھتے اور ہزاروں اشعار یاد کر لیتے تھے۔ چنانچہ صحابہ کرام کی ایک تعداد نے قرآن مجید حفظ کر لیا۔ سب سے پہلے حافظ قرآن خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپ نے دو دفعہ پورا قرآن حضرت جبرئیل کو سنایا۔ یاد رہے کہ اُس دور میں قرآن کے حافظ کو قاری کہتے تھے۔ بعد میں حدیث کے عالم کو حافظ کہنے لگے اور آج کل قرآن کا حافظ ہوتا ہے۔ ## عہد نبوی میں شہید حافظ صحابہ غزوہ بئر معونہ کے موقع پر ستر (70) ایسے صحابہ شہید ہو گئے جو سب کے سب قرآن کے حافظ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جنگ یمامہ کے موقع پر سات سو (700) حفاظ شہید ہوئے تھے۔ ## عہد نبوی میں قرآن حفظ کرنے والے صحابہ عہد نبوی میں جن صحابہ کرام نے قرآن حفظ کیا اُن میں سے چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں: 1- حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 2- حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 3- حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 4- حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ 5- حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ 6- حضرت سعد رضی اللہ عنہ 7- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 8- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ 9- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ 10- حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ 11- حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ 12- حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ 13- حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ 14- حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ 15- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ 16- حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان میں سے آخری صحابی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اتنا عمدہ طریقے سے تلاوت کرتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن کو نماز تراویح میں امام مقرر کیا تھا۔ ## صحابیات جنہوں نے قرآن حفظ کیا ان حضرات کے علاوہ جن صحابیات نے پورا قرآن مجید حفظ کیا اُن میں سے چند مشہور نام یہ ہیں: 1- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها 2- حضرت حفصہ رضی اللہ عنها 3- حضرت ام سلمہ رضی الله عنها 4- حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنها ## قرآن کے حفظ کا سلسلہ قرآن کے حفظ کا یہ سلسلہ عہد نبوی سے تا حال نسلاً بعد نسل جاری ہے اور ہر زمانے میں ہزاروں لاکھوں حفاظ دنیائے اسلام میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ دنیا سے لکھا ہوا قرآن ناپید بھی ہو جائے جب بھی مسلمان اپنے حافظے کی مدد سے اس کو پھر سے لکھوا سکتے ہیں۔ اس طرح قرآن مجید حفظ کے ذریعے ہر دور میں محفوظ رہا ہے۔ ## کتابت اگر چہ قرآن کی حفاظت کا اصل دارو مدار حفظ ہی پر تھا لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی کتابت کا اہتمام بھی فرمایا۔ جتنا قرآن نازل ہوتا اُسے صحابہ کرام کے ذریعے آپ لکھوا لیتے اور جمع کر کے اپنے پاس رکھ لیتے۔ جن صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن لکھا اُن کو کاتبین وحی کہا جاتا ہے۔ ## کاتبین وحی میں شامل صحابہ کاتبین وحی میں درج ذیل شامل تھے : 1- حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 2- حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 3- حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 4- حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ 5- حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ 6- حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ 7- حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ 8- حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ 9- حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ 10- حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ 11- حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ 12- حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ 13- حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 14- حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ## قرآن کی کتابت کی مختلف اشیاء وہ قرآن کے مختلف حصے اور اجزا لکھے ہوئے موجود تھے۔ عہد نبوی में قرآن مجید کاغذ کی ایک کتاب کی صورت میں تحریر نہ تھا۔ بلکہ متفرق طور پر پتھر کی سلوں، چمڑے के ٹکڑوں، درخت کی چھالوں، کھجور کے پتوں اور چوڑی ہڈیوں پر لکھا گیا تھا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رکھ دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام نے ذاتی طور پر بھی اپنے لیے قرآن کے مصاحف لکھ लिए थे। ان میں درج ذیل لوگ شامل تھے : 1- حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ 2- حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 3- حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ 4- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ 5- حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 6- حضرت ابو ایوب انصاری 7- حضرت عبداللہ بن عمر 8- حضرت زید بن ثابت 9- تمیم داری جو قرآن حضور کی نگرانی میں لکھا جاتا تھا اُسے موجودہ قرآنی ترتیب کے مطابق ہی لکھا جاتا تھا۔ آپ کا تبین وحی کو ہدایت فرما دیتے تھے کہ یہ آیتیں فلاں سورت یا آیت سے پہلے یا بعد لکھی جائیں۔ اس طرح قرآن مجید کی سورتوں اور آیتوں کی ترتیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الہی کے مطابق رکھی۔ اس ترتیب میں سب سے پہلی سورت الفاتحہ ہے اور سب سے آخری سورت الناس ہے۔ ## قرآن کی ترتیب توقیفی قرآن کی یہ ترتیب توقیفی کہلاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالٰی کے حکم اور وحی کے مطابق ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور کا اجتہاد شامل نہیں۔ اس طرح قرآن کی نزولی ترتیب الگ تھی اور موجودہ ترتیب اس سے مختلف ہے کیونکہ نزولی ترتیب میں سب سے پہلے سورۂ العلق کی ابتدائی پانچ آیتیں آتی ہیں ۔ ## عہد صدیقی میں قرآن کی تدوین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اور عہد صدیقی کی ابتدا میں قرآن تحریری طور پر ایک کتاب کی جلد میں مرتب نہیں تھا بلکہ مختلف اشیاء پر اس کے مختلف حصے اور اجزا لکھے ہوئے موجود تھے۔ خلافت صدیقی میں ایک جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ (11ھ) ہوئی جس میں بہت سے حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ اگر اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے یا دنیا سے رخصت ہو گئے تو پھر قرآن کی حفاظت کیسے ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ وہ قرآن مجید کو ایک کتاب کی صورت میں لکھوا کر محفوظ کر دیں۔ ## عہد صدیقی میں قرآن جمع کرنے کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس تجویز پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ جو کام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ اسے کیسے کر سکتے ہیں؟ حضرت ابو بکر صدیق نے قرآن جمع کرنے کے لیے حضرت زید بن ثابت انصاری کو قرآن جمع کرنے والی کمیٹی کا صدر مقرر کیا۔ اس کمیٹی میں کئی جلیل القدر صحابہ کرام شامل تھے۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت انصاری نے قرآن جمع کرنے کا کام شروع کر دیا۔ لوگوں میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کی لکھی ہوئی آیات موجود ہوں وہ حضرت زید بن ثابت کے پاس لے آئے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اپنی رائے پر اصرار کرتے رہے ۔ آخر کئی روز से پیہم اصرار کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی اس تجویز से اتفاق کر لیا اور وہ یہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے ۔ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ को بلایا اور اُن سے مشورہ کیا۔ اور جب وہ بھی اس بات کے قائل ہو گئے تو اُن کو قرآن جمع کرنے اور اس کو کتابی صورت میں لکھوانے کا حکم دیا ## حضرت زید بن ثابت کی صلاحیت حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ واقعی اس کام के اہل تھے۔ وہ جوان اور سمجھ دار تھے۔ عہد نبوی میں کاتب وحی رہ چکے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر के قریب ہی اُن کا گھر تھا۔ وہ قرآن کے حافظ بھی تھے ## قرآن جمع کرنے کا طریقہ جب کوئی آدمی ان کے پاس قرآن کی لکھی ہوئیں آیتیں لے کر آتا تو چار طریقوں से اُن کی تصدیق کی جاتي: 1- حضرت زید بن ثابت انصاری جو اپنے حافظے से اُس کی تصدیق کرے۔ 2- کوئی لکھی ہوئی آیت اُس وقت تک قبول نہ کی جاتي جب تک دو معتبر گواہ یہ گواہی نہ دیتے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھیں۔ 3- پھر ان آیتوں کا موازنہ (Comparison) ان دوسرے مجموعوں اور مصاحف से کیا جاتا جو بعض صحابہ کرام کے پاس تھے ## آیت جو صرف ایک حافظ کے پاس موجود تھی سے اتفاق سے ایک آیت ایسی تھی جو صرف حضرت خزیمہ انصاری के पास لکھی ہوئی موجود تھی۔ یہ سورہ توبہ کی درج ذیل آیت تھی: `` لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ . (التوبر (128) `` (بے شک تمہارے پاس اللہ کا رسول آ گیا ہے جو تمہیں میں سے ہے تمہارا ا نقصان میں پڑتا اُس پر بہت شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا خواہش مند ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے ۔) ## ایک آیت کے لیے ایک حافظ کی گواہی اس آیت پر دو گواہیاں نہ ہونے کے باوجود اسے قبول کر لیا گیا کیونکہ یہ آیت سیکڑوں حفاظ کو زبانی یاد تھی۔ اگر چہ سوائے حضرت خزیمہ انصاری के کسی پاس لکھی ہوئی موجود نہ تھی۔ دوسرے اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ حضور نے حضرت خزیمہ کی گواہی کو دو گواہوں کی گواہی کے برابر قرار دیا تھا۔ لہذا اس بنیاد پر بھی یہ آیت جمع کر لی گئی۔ ## حضرت زید نے ایک سال میں قرآن جمع کر لیا اس طرح حضرت زید بن ثابت انصاری نے نہایت درجہ احتیاط کے ساتھ ایک سال کی مدت میں سارا قرآن جمع کر لیا اور اسے ایک کتاب کی صورت میں پیش کر دیا۔ اس نسخے میں ہر سورت الگ صحیفے میں درج تھی اور اس کا نام مصحف ام یا مصحف امام رکھا گیا۔ ## مصحف ام کی خصوصیات اس نسخے کی چند خصوصیات یہ تھیں: 1- اس میں قرآنی آیات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق درج کیا گیا تھا ۔ 2- اس میں سورتوں کو ملا کر نہیں لکھا گیا تھا بلکہ ہر سورت کو الگ الگ رکھا گیا ۔ 3- اس میں ساتوں حروف (سبعہ احرف یا قراءات) جمع ثے ۔ 4- اسے خط حمیری میں لکھا گیا تھا ۔ 5- اسے لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا نسخہ مرتب ہو جائے جس پر تمام امت کی مہر تصدیق ثبت ہو اور ضرورت کے وقت اس کی طرف رجوع کیا جا سکے۔ ## عثمانی دور میں تدوین قرآن حضرت زید بن ثابت انصاری کا مرتب کیا ہوا قرآن جسے مصحف الام یا "مصحف الامام का نام دیا گیا था, دور صدیقی में حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ ان کی وفات کے بعد یہ مصحف حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا اور اُن کی شہادت के بعد یہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا کے پاس رکھا گیا۔ ## عثمانی دور میں قراءت के اختلاف کا مسئلہ لیکن دور عثمانی میں جب اسلام عرب से نکل کر ایران و روم اور دوسرے بھی ممالک تک پھیل گیا تو حجمی لوگوں کے لیے ایک نیا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہو۔ یہ قراءت کے اختلاف کا مسئلہ تھا۔ ## قراءت کے اختلاف اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ آرمینیا اور آذربائیجان کے محاذ پر جہاد میں شریک تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگ قرآن کی قراءت کے حوالے से اختلاف کر رہے ہیں۔ مدینے واپس آ کر انہوں نے امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا تو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم से کوفہ بصرہ شام کہ یمن اور بحرین بھجوا دیے گئے اور انہوں نے انہوں صحابی کرام کو جمع کر کے اُن के سامنے ہے رائے بھی کہ مصفی نام ان اُن کے ساتھ ایک ایک قاری بھی اسے پڑھ کر سنانے کے لیے بھیجا گیا۔ نے انہوں نے صحابی کرام کو جمع کر کے اُن के سامنے ہے رائے بھی کہ مصفی نام ان اُن کے ساتھ ایک ایک قاری بھی اسے پڑھ کر سنانے کے لیے بھیجا گیا۔ ## عثمانی دور میں قرآن جمع کرنے کا حکم قرآن صرف قریش کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونкъه نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قریشی تھے اللہ تبارک و تعالی نے انہیں صح الصح العرب تھے اور قرآن قریش ہی کے لہجے میں اُترا تھا. کے لہجے میں لکھا اور پڑھا جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Use Quizgecko on...
Browser
Browser