Islamic Studies Past Paper PDF
Document Details
Uploaded by PoisedSapphire8033
Tags
Summary
This document provides an overview of Islamic studies, focusing on the pre-Islamic period in the Arabian Peninsula. It details the social, political, and religious conditions that existed before the advent of Islam.
Full Transcript
# اسلامیات (لازمی) برائے بی ایس کلاسز ## 4. یمن: - یمن بین جزیرہ نما عرب کا جنوبی حصہ ہے۔ یہ بحر ہند کے ساحل سے متصل واقع ہے۔ - اس کے حدود تہامہ سے عروض تک پھیلے ہوئے ہیں۔ - یمن کو "من" اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بیت اللہ سے جانب یمین (دائیں جانب) واقع ہے۔ ## 5. معروض: - معروض، بیمانہ، عثمان اور ب...
# اسلامیات (لازمی) برائے بی ایس کلاسز ## 4. یمن: - یمن بین جزیرہ نما عرب کا جنوبی حصہ ہے۔ یہ بحر ہند کے ساحل سے متصل واقع ہے۔ - اس کے حدود تہامہ سے عروض تک پھیلے ہوئے ہیں۔ - یمن کو "من" اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بیت اللہ سے جانب یمین (دائیں جانب) واقع ہے۔ ## 5. معروض: - معروض، بیمانہ، عثمان اور بحرین پر مشتمل ہے۔ - اس علاقے کو عروض اس لیے کہا جاتاہے کہ یہ یمن اور مجد کے سامنے (مشرق میں) واقع ہے۔ ## موجودہ دور میں جزیرہ نما عرب میں قائم حکومتیں اور ان کا رقبہ: جزیرہ نما عرب میں آج کل سات حکومتیں قائم ہیں۔ بلحاظ رقبہ ان کی ترتیب کچھ یوں ہے : | نمبر شمار | ملک | دار الحکومت | رقبہ (مربع کلومیٹر میں) | |---|---|---|---| | 1 | سعودی عرب | ریاض | 2,248,000 | | 2 | جمہوریہ یمن | صنعاء | 472,099 | | 3 | سلطنت عمان | مسقط | 306,000 | | 4 | متحدہ عرب امارات | ابوظبی | 83,000 | | 5 | کویت | کویت | 17,818 | | 6 | قطر | روحه | 11.437 | | 7 | بحرین | منامه | 694 | | | | | **3.139.048** (مجموعی رقبہ) | ## قبائل عرب: مؤرخین نے نسلی اعتبار سے اقوام و قبائل عرب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: ### 1. عرب بلده: - یہ عرب کے وہ قدیم قبائل ہیں جو اسلام سے قبل ہی فنا ہو چکے تھے، مثلاً: عاد، ثمود، جدیس، طلسم، عمالقہ ، امیم، جرحم وغیرہ۔ - یہ قبائل چونکہ طلوعِ اسلام سے پہلے ہی مٹ چکے تھے، اس لیے انہیں "عرب بلدہ (مٹ جانے والے عرب) کہا جاتا ہے۔ ### 2. عرب عاربه - عرب بلده کی تباہی کے بعد چونکہ یہ لوگ جزیرہ عرب کے اصل باشندے بن گئے تھے، اس لیے انہیں "عرب عاربه" کہا جاتا ہے۔ - یہ چونکہ تشجب بن يعرب بن قحطان کی نسل سے ہیں اس لیے انہیں "قحطانی عرب " بھی کہا جاتا ہے۔ - قحطان، حضرت نوح مالیت کے بیٹے سام کی اولاد میں سے تھے۔ - ان قبائل کا اصل مسکن ملک یمن تھا۔ - عرب عاربہ کی بنیادی طور پر دو شاخیں تھیں: - حمیر: یہ جزیرہ عرب کے جنوب کی جانب آباد تھے۔ - کہلان: یہ جزیرہ عرب کے مشرق اور شمال کی جانب آباد تھے۔ ### 3. عرب مستعربه - یہ عرب کے وہ قبائل ہیں جو حضرت اسماعیل اسلام کی نسل سے ہیں، انہیں "عدنانی عرب " بھی کہا جاتا ہے۔ - یہ لوگ چونکہ ملک ۔ عرب میں باہر سے آکر آباد ہو گئے تھے ، اس لیے انہیں " عرب مستعر بہ یا مخلوط عرب " کہا جاتا ہے۔ - ان کی بنیادی طور پر دو شاخیں تھیں: - ربیعہ: یہ جزیرہ عرب کے مشرق یعنی بحرین کی جانب آباد تھے۔ - معفر : یہ جزیرہ عرب کے وسط اور مغرب کی جانب آباد تھے۔ - مصر کی ایک ذیلی شاخ قریش ہے، قریش کی ایک ذیلی شاخ بنو ہاشم ہے جس سے رسول اللہ مال میں ہی تعلق رکھتے ہیں۔ - اس اعتبار سے رسول اللہ ملی ہی ایم ہاشمی، قریشی، مصری، عدنانی ہوئے۔ # اسلام سے قبل عرب کی حالت ## اسلام سے قبل عرب کی دینی حالت: - اسلام سے قبل (زمانہ جاہلیت میں ) ملک عرب میں بہت پر ستی کا عام رودان تھا اور لوگ مختلف انداز میں. اپنے اپنے بہتوں کی پوجا کرتے تھے۔ - ابتدا میں بتوں کی پرستش کو صرف خُدا تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن بعد میں انہیں خُدا کا درجہ دے دیا گیا۔ - اس زمانہ میں کعبہ مکمل بت خانہ میں تبدیل ہو چکا تھا جس میں تین سو ساٹھ سے زیادہ بہت رکھے ہوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسانہ تھا جس کا بہت وہاں موجود نہ ہو۔ - حج کے زمانے میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے بہت کے سامنے کھڑے ہوتے ، اس کی پوجا کرتے اور اُس کو اچھے ناموں سے پکارتے تھے۔ ## اسلام سے قبل عرب کی سیاسی حالت: - اسلام سے قبل ملک عرب کے جنوبی حصہ پر سلطنت حبشہ اور مشرقی حصہ پر سلطنت فارس کا قبضہ تھا۔ - شمالی نکڑا سلطنت روم کی مشرقی شاخ سلطنت قسطنطنیہ کے زیر اثر تھا۔ - اندرون ملک بزعم خود آزاد تھا لیکن اس پر قبضہ کرہ نے کے لیے ہر ایک سلطنت کوشش میں لگی ہوئی تھی تاہم ان سلطنتوں کی باہمی دفاقت اور چپقلش کے طفیل ملک عرب آزادی کی نعمت سے بہرہ ور تھا۔ ## اسلام سے قبل عربوں کی اخلاقی و معاشرتی حالت: - اسلام سے قبل عرب معاشرے میں ہر وقت جنگ و تبدل کا بازار گرم رہتا تھا۔ - ذرا ذرا سی بات پر لڑنا اور ایک دوسرے کو قتل کر دینا ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ - ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے برسر پیکار رہتا تھا۔ - ہر بچہ اپنے باپ اور عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبہ میں پرورش پاتا تھا اور جوان ہو کر پھر اس فریضہ کو سر انجام دیتا تھا۔ - معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا جو بعض اوقات کئی کئی عشروں پر محیط ہوتا تھا، ان لڑائیوں کو مورخین امام العرب " کہتے ہیں جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہیں۔ - ان لڑائیوں میں بے زخمی اور سفاک کی حالت یہ تھی کہ جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر قبضہ کر لیتا تو اس کے بچوں۔ بوڑھوں اور عورتوں و گرفتار کر لیتا اور سب کو قتل کر دیتا تھا۔ - عرب میں جوئے کار وانج اتنا عام تھا کہ بعض اوقات کسی شرط پر بازی ہار جانے پر لوگ مال و دولت کے بعد گھر کی خواتین اور بچوں تک پر بازی لگادتے تھے۔ - سود خور ی کا مام روان تھا ور تمام دولت مند لوگ سود کا لین دین کرتے تھے۔ - عرب میں لوٹ مار کا عام رواج تھا۔ - بعض قبائل نے واپنا ذریعہ معاش بنالی تھے۔ - تاجروں اور سوداگروں کے قافلے بغیر کسی بھاری انعام کے کسی میدان سے بسلامت راہزنی کو اپناذر گزر نہیں سکتے تھے۔ - ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر کسی دُوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیتا تھا اور مال مویشیوں کو ہانک کر لے جاتا تھا۔ - عورتوں کو جانوروں سے بھی کمتر سمجھا جاتا تھا نہیں وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ - ایک مرد جتنی عورتوں سے شادی کرنا چاہتا ت پر کوئی پابندی نہیں تھی، اور جس عورت کو جس وقت چاہتا بغیر کسی وجہ کے چھوڑ دیتا تھا۔ - سے عورت جب بیوہ ہو جاتی تو اسے گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کو ٹھڑی رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہنے کو دیے جاتے تھے۔ - جس شخص کی بیٹی پیدا ہوتی اس کو سخت ترنج ہوتا اور وہ شرم کے مارے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا تھا۔ # سیرت النبی الی الم کا قبل از نبوت دور ## بی کریم کی ولادت با سعادت اور سلسلہ نسب: - بی کریم مسی نداریم کی ولادت بروز پیر 9 ربیع الاول / بمطابق 20 اپریل 571ء کو عرب کے مشہور شہر مکہ میں ہوئی۔ - آپ کا تعلق قریش کی شاخ بنو ہاشم سے ہے ، سلسلۂ نسب یہ ہے: - مُحَمَّدُ بن عبد الله بن عَبْد الْمُطَّلِب بن هاشم بن عبد مناف بن قُصَى بن كلاب بن مُرَّةَ بْنِ كَعْب بن لَوَّى بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خُزَيْمَة بن مُدْرِكَة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عَدْنَان. - عدنان تک سلسلۂ نسب اجماع امت سے ثابت ہے ، اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ عدنان حضرت اسما عیل مینا کی اولاد میں سے ہیں، البتہ عدنان سے آگے حضرت آدم ملینا اتک سلسلۂ نسب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ - والدہ کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: - مُحَمَّد بن آمنة بنت وهب بن عبد مناف بن زُهْرَة بن كلاب، اس سے معلوم ہوا کہ کلاب بن مرہ پر آپ میں بی ایم کے والدین کا سلسلۂ نسب جمع ہو جاتا ہے۔ - آپ میں کیا اسلام کے دادا عبد المطلب نے آپ کا نام محمد رکھا اور عرب کے دستور کے مطابق ساتویں دن آپ کا ختنہ کرایا۔ ## والد ماجد کا انتقال: - آپ مین کے والد عبد اللہ کی وفات آپ کی پیدائش سے پہلے ہو چکی تھی۔ - اس کا واقعہ یہ ہوا کہ عبداللہ تجارت کے لیے قافلہ کے ساتھ ملک شام گئے ہوئے تھے، واپسی میں حضرت عبداللہ بیماری کے سبب یثرب میں اپنے ماموں کے ہاں ٹھہر گئے۔ - قافلہ مکہ پہنچا تو حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ - قافلہ والوں نے بتایا کہ وہ بیمار تھے اس لیے واپسی پر یثرب میں ٹھہر گئے۔ - حضرت عبدالمطلب نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو عبداللہ کی خبر لینے کے لیے یثرب بھیجا، تاہم حارث بن عبد المطلب کے پہنچنے سے پہلے حضرت عبداللہ فوت ہو چکے تھے۔ - وفات کے وقت حضرت عبداللہ کی عمر پچیس سال تھی۔ ## عالم القبيل: - عام الفیل کے معنی ہیں: ہاتھیوں والا سال، اس سال کو " عام الفیل " اس لیے کہا جاتا ہے: کہ اس سال یمن کے عیسائی گورنر ابرہہ ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تا کہ اسے مسمار کر دے۔ - اللہ تعالی نے آبا بیل پرندوں کا جھرمٹ بھیجا جنہوں نے اس لشکر پر کنکروں کی بارش کر دی۔ جس کے نتیجے میں ہاتھیوں سمیت پورا لشکر تباہ ہو گیا۔ - یوں اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے خانہ کعبہ کی حفاظت فرمائی اور آبر بہ کا منصوبہ ناکام بنادیا۔ - آپ منی بی دینی اس واقعہ کے پچاس یا پچپن دن بعد پیدا ہوئے۔ ## رضاعت - سب سے پہلے رسول اللہ ما با اینم کو آپ کی والدہ نے اور دو تین روز کے بعد ابولہب کی کنیز ثویبہ نے دودھ پلایا۔ - اُس زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھا کہ شہر کے شرفاء، بچوں کو دودھ پلانے کے لیے قرب وجوار کے دیہات میں بھیج دیتے تھے۔ - جس سے بچوں کی جسمانی صحت بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص عربی زبان بھی سیکھ لیتے تھے۔ - اس دستور کے مطابق آپ کی والدہ بی بی آمنہ نے آپ کو قبیلہ ہوازن کی ایک دایہ حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا۔ - جہاں آپ نے تقریباً چار سال گزارے۔ ## شق الصدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے کا واقعہ: - آپ مین کی عمر مبارک جب چار سال ہوئی، تو ایک روز آپ گھر کے باہر کھیل رہے تھے کہ حضرت جبریل آپ کے پاس آئے اور آپ کو چت لٹایا۔ - پھر انہوں نے آپ کا سینہ مبارک چاک کر کے اُس میں سے دل نکالا اور اُسے آب زم زم سے دھو کر واپس رکھ دیا، اس کے بعد آپ کا سینہ برابر کیا اور واپس چلے گئے۔ - یہ واقعہ "شق الصدر " کہلاتا ہے۔ - حضرت حلیمہ اور ان کے شوہر حضرت حارث کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ سخت خوف زدہ ہو گئے، کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، چنانچہ فورا آپ کو والدہ ماجدہ کے پاس مکہ لے آئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ## حضرت آمنہ اور حضرت عبد المطلب کی وفات: - جب آپ میں دینہ کی عمر مبارک چھ برس ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو اپنے شوہر عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لیے یثرب لے گئیں، اس سفر میں آپ کی خادمہ ام ایمن بھی ساتھ تھی۔ - تقریباً ایک ماہ یثرب میں قیام کے بعد واپس رہے تھے کہ راستے میں "ابواء" کے مقام پر حضرت آمنہ بیمار پڑ گئیں اور کچھ روز بعد رحلت فرما گئیں۔ - حضرت آمنہ کو وہیں دفن کیا گیا اور آپ سی ای ام ام ایمن کے ساتھ مکہ واپس لوٹے۔ - والدہ کی جدائی کے بعد آپ اپنے دادا عبد المطلب اور آپ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ - تاہم جب آپ کی عمر مبارک آٹھ برس ہوئی تو چا کا ہاتھ بنانے کے لیے آپ نے گلہ بانی کا پیشہ اختیار کیا۔ - عبد المطلب بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ## حضرت ابو طالب کی کفالت میں: - عبد المطلب کی وفات کے بعد آپ چا ابو طالب کی زیر تربیت آگئے۔ - ابو طالب آپ کو اپنی اولادت بڑھ کر چاہتے تھے اور سفر و حضر مہر موقع پر ساتھ رکھتے تھے۔ - ابو طالب کیونکہ مالی لحاظ سے کمزور تھے، اس لیے آپ نے اپنے آپ کو کبھی بھی ان کے اوپر بوجھ نہیں بنے دیا، چنانچہ جب آپ اے پی ایم کی عمر اس برس ہوئی تو چا کا ہاتھ بنانے کے لیے آپ نے گلہ بانی کا پیشہ اختیار کیا۔ ## شام کا سفر اور تغیر نامی راہب سے ملاقات: - جب آپ اپنی تاریخ کی عمر بارہ برس ہوئی تو آپ نے اپنے چا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی قافلہ کے ساتھہ شام کا سفر کیا۔ - اس سفر میں جب یہ قافلہ شام کے سرحدی شہر ابھری میں داخل ہوا، تو وہاں " جر جہیں " نامی ایک عیسائی راہب جو "نجیر " کے لقب سے معروف تھا، کی نظر جب آپ پر پڑی تو پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ - ابو طالب نے کہا: یہ میرا بھتیجا ہے۔ - میرا نے ابو طالب سے کہا کہ اس کو فورا واپس لے جاؤ کیونکہ تمہارے بھتیجے کی عجیب شان ہے اور اس کی صفات میں اپنی کتاب (انجیل) میں پاتا ہوں۔ - اگر تم اس کو شام لے گئے تو یہود اس کو قتل کر ڈالیں گے۔ - چنانچہ ابو طالب آپ کو واپس مکہ لے آئے۔ ## عرب انجار: - جب آپ کی عمر مبارک میں برس ہوئی، تو قبیلہ قریش اور قبیلہ قیس کے درمیان عکاظ کے میلے ( یہ مکہ کے قریب ہر سال ایک میلہ لگتا تھا میں ایک زبر دست جنگ چھڑ گئی۔ - یہ جنگ چونکہ اشتر خرم 17 میں سے ایک مہینہ دو التعدہ میں لڑی گئی، اس سیا یہ جنگ "حرب فجار " بناء کی ایرانی) کہلاتی ہے۔ - چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے اس لیے نبی کر یہ سی ایم نے بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ مل کر اس جنگ میں شرکت کی۔ - آپ نے اپنے رحم دلی کی وجہ سے کسی پر ہتھیار نہیں اُٹھایا، صرف دشمن کے پھینکے ہوئے تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چھاؤں کو دیتے رہے۔ - اس لڑائی میں پہلے تیس پھر قریش غالب آئے اور آخر کار صالح پر اس برائی کا خاتمہ ہو گیا۔ ## حلف الفضول: - جنگ فجار کے فورا بعد " حلف الفضول " کا واقعہ پیش آیا۔ - یہ ایک عہد نامہ تھا جس میں قریش کے تمام قبائل نے خُدا کے نام پر قسمیں کھائی تھیں کہ اگر مکہ میں کسی پر ظلم ہو گا تو ہر صورت مظلوم کا ساتھ دیں گئے اور جب تک ظالم کو سزا اور مظلوم کو اس کا حق نہیں ملتا آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ - یہ معاہدہ مکہ کے ایک بڑے سردار عبد اللہ بن جدعان کے گھر پر ہوا تھا۔ - اس موقع پر آپ اسی دنیا ہم بھی اپنے چاز بیر بن عبد المطلب کے ساتھ موجود تھے۔ - آپ کالای ایران ہم کو یہ معاہدہ فرمایا ی تاکہ اما نبوت کے بعد پریا کرتے تھے کہ اس معاہد سے ہے ان خوشی ہوئ کہ اگر اس قدر عزیز اعلان مجھے اس معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سُرخ رنگ کے (انتہائی قیمتی ) اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہ ہوتی۔ - اس معاہدہ کو حلف الفضول "کیوں کہتے ہیں ؟ اس بارے میں کئی اقوال ہیں، مشہور قول یہ ہے: کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ جرحم کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسی ایک معاہدہ ہوا تھا اور چونکہ قبیلہ بر خم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے، اُن سب لوگوں کے نام میں لفظ "فضل " مشترک تھا، یعنی: فضل بن حارث، فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ، اس لیے اس معاہدہ کا نم " حلف الفضول رکھ دیا گیا۔ ## تجارت کے لیے شام کا سفر اور حضرت خدیجہ سے نکاح: - جب آپ مسلم کی عمر مبارک تقریباً پچیس برس ہوئی تو آپ کی امانت و صداقت کا چر چاڈور دُور تک پھیل چکا تھا۔ - اور آپ "صادق " اور "امین" کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ - حضرت خدیجہ مکہ کی ایک نہایت مالدار اور پاک دامن خاتون تھی، جو اپنی پاک دامنی اور پارسائی کی وجہ سے "طاہرہ" کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔ - اُس کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا، چنانچہ وہ اب اس تلاش میں تھی کہ کوئی امانت دار آدمی مل جائے جو اُس کا سامانِ تجارت لے کر شام چلا جائے۔ - حضرت خدیجہ کو جب آپ اسی یا امام کی امانت و صداقت کا علم ہوا تو آپ کو دوگنی اجرت کے عوض سامانِ تجارت شام لے جانے کی پیشکش کی۔ - آپ نے اس پیشکش کو قبول فرمایا اور سامان تجارت لے کر شام چلے گئے۔ - اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ " بھی آپ کے ساتھ تھا۔ - آپ کی سچائی اور دیانت کی وجہ سے اب کے بار پہلے سے کئی گنازیادہ منافع ہوا۔ - سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی پوری رو داد حضرت خدیجہ کے گوش گزار کی اور آپ کی صداقت وامانت کا بھی ذکر کیا۔ - جس سے حضرت خدیجہ کے دل میں آپ سے شادی کی خواہش پیدا ہو گئی۔ - چنانچہ اپنی سہیلی نفیہ بنت امیہ کو شادی کا پیغام دے کر آپ کے پاس بھیجا جسے آپ نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ - نکاح کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال جب کہ آپ منہ کی عمر پچیس سال تھی۔ ## خانہ کعبہ کی تعمیر اور حجر اسود کی تنصیب: - جب آپ میں بیا نیہ کی عمر مبارک 35 برس ہوئی، تو قریش نے خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کا فیصلہ کیا، کیونکہ نشیب میں ہونے کی وجہ ت ایک تو بارش کا تمام پانی اندر بھر جاتا تھا۔ - دوسر امرورِ زمانہ کی وجہ سے خانہ کعبہ کی عمارت بھی کافی بوسیدہ ہو چکی تھی۔ - بیت اللہ کی تعمیر سے پہلے تمام قبائل قریش نے باہم بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ اس کی تعمیر میں صرف حلال مال لگایا جائے گا، زنا، چوری اور سود وغیرہ کا پیسہ اس میں شامل نہیں ہو گا، کیوں کہ اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو پسند کرتا ہے۔ - اس کے بعد ہر قبیلہ کو اس کا کام حوالہ کیا گیا اور بیت اللہ کی تعمیر شروع ہوئی۔ - جب تعمیر مکمل ہوگئی اور حجر اسود کی تنصیب کا وقت آیا، تو سخت اختلاف پیدا ہوا۔ - اس میں کئی روز گزر گئے کیونکہ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ سعادت اُسے نصیب ہو۔ - قریب تھا کہ ایک خون ریز جنگ بر پا ہو جاتی۔ - آخر قریش کے ایک بزرگ ابو امیہ بن مغیرہ مخزومی نے یہ رائے دی کہ اگر آپ سب متفق ہوں تو کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے سے داخل ہو ، اسی سے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں۔ - تمام قبائل نے اس رائے کو پسند کیا۔ - چنانچہ جب صبح ہوئی تو تمام قبائل کے سردار حرم پہنچے۔ - دیکھا تو سب سے پہلے آنے والے محمد رسول اللہ صل امیر آرہی ہیں۔ - آپ ko دیکھتے ہی سب کی زبانوں سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے : یہ تو حد ہیں، یہ آمین ہیں، ہم ان کے محکم بنانے پر راضی ہیں۔ - آپ لیا ہم نے کمال دانشمندی سے اس تنازع کو حل فرمایا۔ - سب سے پہلے آپ نے ایک چادر منگوائی اور حجر اسود کو اس پر رکھ دیا اور فرمایا: کہ ہر قبیلے کا سردار چادر کے ایک کونے کو تھام لے ، تاکہ اس شرف سے کوئی بھی قبیلہ محروم نہ رہے۔ - پھر سب نے مل کر وہ چادر اُٹھائی۔ - جب حجر اسود کو اُس مقام تک لے جایا گیا جہاں اُسے رکھنا مقصود تھا، تو آپ ne اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اُس جگہ پر رکھ دیا۔ - یوں آپ اسی کی ہم نے اپنی فہم و فراست اور دور اندیشی سے قریش کو ایک خون ریز جنگ میں دھکیلنے سے بچالیا۔ # سیرت النبی نیم مکی دور ## پہلی وحی کا نزول: - رسول الله ان ایام کو بچپن ہی سے بات پر کسی سے شدید نفرت تھی، چنانچہ آپ نے کبھی بھی جاہلیت کی کسی رخم میں شرکت نہیں کی۔ - آپ اکثر تنہائی میں لے کر خدا کو یاد کیا کرتے تھے۔ - جب آپ کی عمر 35 سال ہوئی تو آپ ہر سال رمضان کے مہینے میں شہر کی رو نہیں چھوڑ کر اور گوشہ نشینی کی خاطر غار حراء جانے لگے۔ - جب آپ کی عمر چالیس سال ہوئی تو ایک روز غار حراء میں مہارت میں مشغول تھے کہ جبریل امین رب العالمین کی طرف سے وحی لے کر نازل ہوئے۔ - پہلی وحی کے الفاظ یہ تھے؟ - اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الإِنسَانَ مِن عَلَى اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ * عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ } 18 . - ترجمہ : پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جھے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ جس نے قلم سے تعلیم دی۔ انسان کو اس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔ - اس کے بعد رسول اللہ صلی یا کانپتے لرزتے وہاں سے پالنے اور حضرت خدیجہ کے پاس پہنچ کر کہا: مجھے کمبل اڑھاؤ، مجھے کمبل اڑھاؤ۔ - اُنہوں نے آپ کو کمبل اڑھادیا۔ - جب آپ کا خوف در ہوا اور کچھ سکون ہوا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے غار میں پیش آنے والا سمار اواقعہ بیان کیا اور فرمایا: مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ - یہ من گر حضرت خدیجہ نے کہا: خدا کی قسم ! خدا کبھی بھی آپ کو رسوا نہیں کرے گا، اس لیے کہ آپ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ، تنگ دست لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت لوگوں کے کام آتے ہیں، - اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو کہ تورات وانجیل کے عالم تھے اور اُس وقت کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ - حضرت خدیجہ نے ان سے کہا: بھائی جان ! ذرا اپنے بھتیجے کا حصہ سینیے۔ - ورقہ نے آپ سے کہا: بھتیجے تم کو کیا نظر آیا؟ - آپ ستر باری نے سارا واقعہ بیان کیا، تو ورقہ کہنے لگے: یہ وہی ناموس ( وجی لانے والا فرشتہ ) اہے جو موسی مارینا پر نازل ہوا تھا، پھر کہنے لگے: کاش ! میں اُس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔ - رسول اللہ لی ہم نے فرمایا: کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ - ورقہ نے کہا: جی ہاں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور اُس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ - اگر میں نے آپ کا وہ زمانہ (ہجرت کا زمانہ) پایانہ میں آپ کی پر زور مدد کروں گا۔ - مگر زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ورقہ بن نوفل کا انتقال ہو گیا۔ ## اولین مسلمان - مدول وحی کے ساتھ ہیں آپ اور بی ایم نے دعوت اسلام کا آغاز کیا، سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر کے افراد اور دوستوں کو اسلام کی دعوت دی۔ - آپ کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں عورتوں میں حضرت خدیجہ مردوں میں حضرت ابو بکر صدی ق ، بچوں میں حضرت علی اور کلاموں میں حضرت زید بن حارثہ شامل ہیں۔ ## خفیہ دعوت: - وحی کا آغاز گو یار سالت کا آغاز تھا، مگر ابھی اعلانیہ تبلیغ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لیے ابتدائی تین سال خُفیہ طریقے سے اشاعت اسلام کا کام جاری رہا۔ - اس دوران مسلمان پہاڑ کی گھاٹیوں میں چھپ چھپ کر نماز پڑھتے رہے۔ - اس مدت میں عثمان بن عثمان ، زبیر بن العوام ، عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص، ابو عبیدہ بن جراح ، طلحہ بن عبید اللہ اور ارقم بن ابی الله قم سمیت تقریبا چالیس لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ ## اعلانیہ تاریخ کا حکم: - آپ پر بنی تمین سال تک خفیہ طریقے سے دعوت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے، اس کے بعد اعالا: یہ تبلیغ کا حکم نازل ہوا: { فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ } ، ترجمہ : پس جس بات کا تمہیں حکم دیا جار ہا ہے اُسے علی الاعلان لوگوں کو سناد و اور جو لوگ ( پھر بھی ) شرک کریں، ان کی پر واہمت کرو۔ - جب یہ حکم نازل ہوا تو آپ پر اپنی صفا" نامی پہاڑی پر تشریف لے گئے اور قریش کے تمام قبائل کو نام لے لے کر پکارا۔ - جب سب لوگ جمع ہو گئے، تو آپ نے فرمایا: اے قریش ! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرو گے ؟ - سب نے ایک زبان ہو کر جواب دیا: کیوں نہیں، ضرور مانیں گے، کیوں کہ ہمارا تجربہ ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، ہمیشہ تھی بولتے ہیں۔ - تو آپ ہم نے فرمایا: اسے لوگوں ! میں تمہیں آنے والے ایک بھیانک عذاب سے ڈرا رہا ہوں ، سو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالو کیونکہ میں تمہارے نفع و نقصان کا مالک نہیں، اور نہ تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے کچھ کام آسکتا ہوں۔ - یہ سُن کر ابولہب نے کہا: تمہارے لیے ہلاکت ہو، کیا تم نے ہمیں اس لیے جمع کیا ہے؟ - چنانچہ اس کے جواب میں سورۃ المسند (سورۃ اللہب ) نازل ہوئی۔ ## ابو طالب کو قریش کی شکایت اور آپ کا جواب: - آپ تیار کریم نے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ پورے آب و تاب سے جاری رکھا۔ - آہستہ آہستہ لوگ آپ کی دعوت پر لبیک کہہ کر مشرف بہ اسلام ہوتے۔ - یہ اسلام ہوتے چلے گئے۔ - آپ میں کیا کہنے کی دعوت سے قریش کو ت سے قریش کو سخت تشویش لاحق ہوئی، چنانچہ قریش کے طاقتور لوگوں نے آپ پسینہ اور کمزور مسلمانوں پر دست درازی اور اذیتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ - اُنہوں نے ہر ممکن طریقہ سے آپ کو ستایا، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے، کوڑا کرکٹ ڈالا، جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کا تمسخر اڑاتے اور آپ کے اوپر کوڑا کرکٹ پھینکتے۔ - یہی نہیں بلکہ انہوں نے آپ کے متعلق یہ افواہیں بھی پھیلائیں کہ آپ (نعوذ بالله مجنون یا کاہن یا شاعر ہیں، لیکن ان تمام تر اوچھے ہتکھنڈوں کے باوجود آپ نے دعوت کا کام پوری ثابت قدمی سے جاری رکھا۔ - سردارانِ قریش نے جب دیکھا کہ آپ اُن کے جھوٹے خداؤں کی مسلسل تو ہین کر رہے ہیں اور کسی صورت بھی اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ، دوسری طرف آپ کے ماننے والوں کی تعداد بھی مسلسل بڑھ رہی ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ آپ کے چا ابو طالب سے بات کی جائے، چنانچہ قریش کے چند سردار ابو طالب کے پاس آئے اور شکایت کی۔ - ابو طالب نے اُن لوگوں کو نہایت نرمی کے ساتھ سمجھا بجھا کر رخصت کر دیا۔ - تاہم آپ اپنے مشن سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے اور دعوت و توحید کا کام برابر جاری رکھا۔ - چنانچہ کچھ دن بعد ابو سفیان، عتبه ، شیبه ، ابو جہل، ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل و غیره سرداران قریش ایک بار پھر ابو طالب کے پاس آئے aur کہا: کہ آپ کا بھتیجا مسلسل ہمارے معبودوں کی توہین کر رہا ہے اس لیے یا تو آپ درمیان میں سے ہٹ جائیں اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیں، یا پھر آپ بھی کھل کر ان کے ساتھ میدان میں نکل پڑیں تاکہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ ہو جائے۔ - ابو طالب نے سردارانِ قریش کے تیور دیکھ کر بھانپ لیا کہ اب یہ معاملہ میرے برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے اور میں اکیلے تمام قریش کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا۔ - چنانچہ ابوطالب نے آپ سی میں رہنے کو