اُحد کی لڑائی (شوال 3 ہجری) PDF

Summary

This document provides a detailed description of the Battle of Uhud, a significant event in Islamic history. It covers the context of the battle, the lead-up, and the key events of the conflict. Islamic historical events and battles are described.

Full Transcript

## اُحد کی لڑائی **شوال 3 ہجری** مکہ میں بدر کے بدلہ لینے کی آگ اندر ہی اندر سلگ رہی تھی، ابوسفیان نے اس جوش سے فائدہ اُٹھایا۔ قریش کا تجارتی سرمایہ لڑائی کے خرچ کے لیے منظور ہوا۔ عربوں کے بھڑکانے اور جوش دلانے کا سب سے کام کا ہتھیار شاعری تھی، قریش کے دو شاعروں نے اس کام کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ ا...

## اُحد کی لڑائی **شوال 3 ہجری** مکہ میں بدر کے بدلہ لینے کی آگ اندر ہی اندر سلگ رہی تھی، ابوسفیان نے اس جوش سے فائدہ اُٹھایا۔ قریش کا تجارتی سرمایہ لڑائی کے خرچ کے لیے منظور ہوا۔ عربوں کے بھڑکانے اور جوش دلانے کا سب سے کام کا ہتھیار شاعری تھی، قریش کے دو شاعروں نے اس کام کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ ان میں سے ایک وہی تھا جو بدر میں قید ہو چکا تھا مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حلم و کرم سے رہا ہو گیا تھا۔ ان دونوں نے قریش کے قبیلوں میں جا جا کر اپنے بیان کی گرمی سے آگ لگا دی۔ قریش کے شریف گھرانوں کی بیبیوں نے بھی سپاہیوں کے دل بڑھانے کا کام کیا۔ بڑے بڑے گھرانوں کی بیبیاں جن کی سردار ابوسفیان کی بیوی ہندہ تھی اپنے گانوں سے قریش سپاہیوں کی رگوں میں شجاعت اور مردانگی کے خون دوڑانے کے لیے سفر کو آمادہ ہوئیں۔ ہندہ کا باپ عتبہ اور جبیر بن مطعم کا چا دونوں بدر کے میدان میں حضرت حمزہ کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ ہندہ نے جبیر کے حبشی غلام وحشی کی آزادی کی قیمت حضرت حمزہ کا سر مقرر کیا تھا۔ مکہ میں یہ تیاریاں ہو رہی تھیں ، مگر ابھی تک مدینہ میں اس کی خبر نہ تھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چا حضرت عباس نے جو اسلام لا چکے تھے ، ایک تیز چلنے والا آدمی بھیج کر مدینہ میں خبر کی۔ اتنے میں خبریں ملیں کہ قریش کی فوج دھاوا کر کے مدینہ کے قریب پہنچ چکی ہے، آپ نے کچھ مسلمانوں کو پہرہ کے کام اور دشمنوں کی دیکھ بھال پر مقر رکیا۔ صبح ہوئی تو مشورہ طلب کیا ۔ اکثر مسلمانوں نے یہ رائے دی کہ عورتوں کو باہر قلعہ میں بھیج دیا جائے اور مرد دیواروں کی آڑ لے کر دشمنوں کا سامنا کریں۔ منافقوں کے سردار عبداللہ ابن ابی بن سلول نے بھی یہی رائے دی لیکن نوجوان مسلمانوں نے جو جوش میں بھرے ہوئے تھے ے حضرت اس پر اصرار کیا کہ شہر سے نکل کر میدان میں مقابلہ کیا جائے ۔ اس قرارداد کے بعد فیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر تشریف لے آئے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی تیاری شروع کر دی۔ قریش نے مدینہ کے پاس پہنچ کر اُحد پہاڑ کے پاس پڑاؤ ڈالا اور دو دن یہاں جمے رہے۔ تیسرے دن جمعہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھ کر ایک ہزار مسلمانوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے، ان میں عبداللہ بن اُبی بن سلول کے بھی تین سو آدمی تھے لیکن یہ کہہ کر وہ اپنے آدمیوں کو ساتھ لے کر واپس چلا گیا کہ محمد نے میری رائے نہ مانی۔ اب صرف سات سو مسلمان رہ گئے جن میں صرف سو آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں ۔ اس لڑائی میں شرکت کی اجازت پانے کے لیے بعض کم سن نو جوان مسلمانوں نے عجیب و غریب جوش دکھایا ۔ رافع بن خدیج سے جب یہ کہا گیا کہ تم عمر میں چھوٹے ہو تو وہ انگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے ۔ سچ ہے قوم کی زندگی کی آگ مکانی نو جوانوں کے ہی جوش عمل کے ایندھن سے جلتی ہے۔ مسلمانوں نے اُحد پہاڑ کو پیٹھ کے پیچھے رکھ کر اپنی صف درست کی ۔ پہاڑ میں آپ درہ ( گھائی) تھا ۔ جدھر سے ڈر تھا کہ دشمن پیچھے سے آ کر حملہ نہ کر دے۔ اس لیے اچھے تیر چلانے والوں کا ایک دستہ اس کی حفاظت کے لیے مقرر کیا اور سجھا دیا کہ لڑائی میں ہماری جیت بھی ہو رہی ہو تو بھی وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں ۔ لڑائی اس طرح شروع ہوئی کہ قریش کی شریف بیویاں دف پر فخر کے شعر اور بدر کے مقتولوں کا درد بھرا مرثیہ پڑھتی ہوئی آگے بڑھیں ۔ پھر قریش کے لشکر کا علم بردار طلحہ صنف سے نکل کر پکارا۔ علی مرتضی نے اس کا جواب دیا اور بڑھ کر تلوار ماری اور طلحہ کی لاش زمین پر تھی ۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نے جرات کی ، اور آخر حضرت حمزہ کی تلوار نے اس کا بھی خاتمہ کر دیا ۔ اب عام جنگ شروع ہو گئی ۔ حضرت حمزہ ، حضرت علی ، ابودجانہ انصاری ، فوجوں کے دل میں گھس گئے اور دشمنوں کی صفیں کی صفیں اُلٹ دیں ۔ حضرت حمزہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لیے لاشوں پر لاشیں گراتے جا رہے تھے۔ جبیر کا حبشی غلام وحشی جس سے ہند نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ حمزہ کو قتل کر دے تو آزاد کر دیا جائے گا ، حضرت حمزہ کی تاک میں تھا ، حضرت حمزہ جیسے ہی اس کی زد میں آئے اس نے حبشیوں کے ایک خاص انداز سے جس میں ان کو پوری مہارت ہوتی ہے ، ایک چھوٹا سا نیزہ پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور پار ہو گیا، حضرت حمزہ نے اس پر پلٹ کر حملہ کرنا چاہا مگر لڑکھڑا کر گر پڑے اور روح پرواز کر گئی۔ ا حق اور باطل کی کیسی عجیب لڑائی تھی ۔ باپ اپنے بیٹے اور بیٹا اپنے باپ کے مقابل تلوار تول رہا تھا ۔ حنظلہ ایک صحابی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے انہوں نے اپنے باپ کے مقابلہ میں جانے کی اجازت چاہی، مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی اجازت نہ دی۔ مسلمان بہادر ایمان کے جوش میں چور تھے ، وہ کافروں کو ہر طرف سے دبائے بڑھے جا رہے تھے۔ آخیر ان کے بے پناہ حملوں سے دشمنوں کے پاؤں اُکھڑ گئے ، اب مسلمانوں نے دشمنوں کے بجائے ان کے مال و اسباب کی لوٹ شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر تیر چلانے والوں نے جو درہ کے پہرہ پر تھے ، اپنی چوکی چھوڑ دی۔ ان کے سردار عبد الله بن جبر نے کتنا ہی ان کو روکا مگر وہ یہ جان کر کہ لڑائی ہو چکی ہے ، وہ بھی لوٹ مار میں شریک ہو گئے ۔ خالد جو بعد کو اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار ثابت ہوئے ، اس وقت مکہ کی فوج میں تھے ، ان کی جنگی نظر سے دشمنوں کی یہ کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی تھی ۔ وہ سواروں کا ایک دستہ لے کر ہو کر آگے بڑھے۔ عبد اللہ بن جبیر اور ان کے چند ساتھیوں نے جم کر مقابلہ کیا اور سب کے سب شہید ہو گئے ۔ خالد نے اب آگے بڑھ کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا ۔ مسلمان لوٹنے میں مصروف تھے ، مُڑ کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں ۔ بد حواسی کا یہ عالم ہوا کہ مسلمان آپس ہی میں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ مصعب بن عمیر جو مسلمانوں کے علمبردار اور صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جلتے تھے، وہ ایک کافر کے ہاتھ سے شہید ہوگئے۔ صفوں کی بے ترتیبی سے آپ تک پہنچنے کے لیے کافروں نے شور و غل مچا دیا کہ محمد نے شہادت پائی۔ اس آواز سے مسلمانوں کے رہے سہے ہوش بھی اُڑ گئے ۔ کافروں کا سارا زور اُدھر تھا جدھر حضور تھے۔ اس کے بعد چند دشمنوں کا راستہ بالکل صاف تھا، ان میں نے وہ حضرت علی مرتضی ، ابوبکر صدیق " ، سعد بن ابی وقاص، زبیر اور طلحہ کے نام مہاجروں میں اور ابودجانہ کا نام انصاریوں میں معلوم ہے، باقی صحابہ کو آپ کی کچھ خبر نہ تھی، یکا یک آپ کو ایک صحابی نے دُور سے پہچانا اور پکارا ، مسلمانو ! رسول اللہ یہ ہیں۔ یہ سن کر ہر طرف سے جاں نشارو ں نے آپ کو دائرہ میں لے لیا۔ کفار نے ہر طرف سے ہٹ کر اُسی رُخ پر زور دیا۔ دل کا دل ہجوم کر کے بڑھتا تھا لیکن ذو الفقار کی بجلی سے یہ بادل پھٹ پھٹ کر رہ جاتا تھا ۔ ایک دفعہ ہجوم ہوا تو فرمایا کون مجھ پر جان دیتا ہے؟ دفعتنا سات انصاری ایک کے بعد ایک بڑھے اور ایک ایک نے لڑ لڑ کر جانیں دیں ۔ ابودجانہ انصاری جھک کر سپر بن گئے ، جو تیر آتے اُن کی پیٹھ پر لگتے طلحہ نے تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکا، حضرت سعد آپ کی طرف سے تیر چلا رہے تھے ، ابوطلحہ نے سپر سے آپ کے چہرہ مبارک کا اوٹ کر لیا تھا ۔ آپ گردن نکال کر لڑائی کا منظر دیکھنا چاہتے تھے تو وہ عرض کرتے کہ آپ گردن نہ اُٹھائیں ، کوئی تیر نہ لگ جائے ، میرا سینہ حاضر ہے ۔ اسی حال میں قریش کا ایک شقی جو بڑا بہادر کہلاتا تھا ، جاں نثاروں کے دائرہ کو توڑ کو آگے بڑھا اور چہرہ مبارک پر تلوار ماری جس کی چوٹ سے خود کی دوکڑیاں چہرہ مبارک میں کچھ کر رہ گئیں ، ام عمارہ صحابیہ نے اس کو تلوار ماری جو اس کی زرہ میں اُچٹ کر رہ گئی ۔ کسی کافر نے دُور سے تیر پھینکا جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر آکر لگا جس سے آگے کے دو دانت شہید ہو گئے ۔ اسی حالت میں آپ کی زبان سے یہ اثر میں ڈوبا ہوا نعرہ نکلا جو رہتی دنیا تک یادر ہے گا۔ اے خُدا میری قوم کے قصوروں کو معاف کر کہ وہ نادان ہیں۔ اس کے بعد چند ثابت قدم صحابیوں کے ساتھ آپ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ ابو سفیان نے دیکھ لیا۔ فوج لے کر پہاڑی پر چڑھا لیکن حضرت عمرؓ اور چند ہمراہیوں نے پتھر برسائے جس سے وہ آگے نہ بڑھ سکا، لیکن سامنے کی دوسری پہاڑی پر چڑھ کر اس نے ہبل دیوتا کی جے پکاری ۔ حضرت عمرؓ نے اس کے مقابلہ میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ ن اب آپ کی وفات کی غلط خبر مدینہ تک پھیل گئی ۔ حضرت فاطمہ زہرا خُدا جانے کس طرح بے تابانہ باپ کے قدموں تک پہنچ گئیں، چہرہ مبارک سے خون جاری تھا۔حضرت علی پر میں پانی بھر کر لائے حضرت فاطمہ روموں کو دھتی تھیں مگر خون نہیں تھم تھا، آخر چٹائی کا ایک ٹکڑا جلا کر زخموں پر رکھ دیا جس سے خون تھم گیا ۔ اس لڑائی میں ستر مسلمان شہید ہوئے ۔ شہیدوں میں سب سے بڑی ہوتی حضرت حمزہ کی تھی، حضور پر اس کا بڑا اثر تھا، مگر مجال کیا تھی جو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا ، اتنا فرمایا کہ آہ! حمزہ پر کوئی رونے والا بھی نہیں ۔ انصار نے سنا تو اپنی عورتوں کو ہدایت کی کہ پہلے حمزہ کا ماتم کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا۔ تمھاری ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ لیکن مُردوں پر رونا جائز نہیں۔ قریش کی عورتوں نے اور خاص کر ابو سفیان کی بیوہ ہندہ نے مسلمان لاشوں سے بے ادبی کر کے اپنے دل کا بخار نکالا ، ان کے ناک کان کاٹ لیے اور ان کو پھولوں کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا ۔ ہندہ نے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کیا اور جگر نکال کر چبایا مگر نگل نہ سکی۔ پھر ایک بلندی پر چڑھ کر چند اشعار گائے کہ آج بدر کا بدلہ ہو گیا۔ اس لڑائی میں یہودیوں کے ڈر سے مسلمانوں نے اپنی بیویوں ، بچوں اور کمزوروں کو قلعہ میں رکھ دیا تھا مگر جو بیبیاں بہادر تھیں، وہ میدان میں موجود تھیں۔ پڑھ چکے ہو کہ حضرت فاطمہ زہرا باپ کی مرہم پٹی کر رہی تھیں اور حضرت عائشہ ؓ سے حضرت اُم سلیڈ اور حضرت ام سلیم اپنے کندھوں پر ملک بھر بھر کر لائی تھیں اور زخمیوں کو پلاتی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھو پھی اور حضرت حمزہ کی بہن حضرت صفیہ شکست کی خبر سن کر مدینہ سے نکلیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے صاحبزادہ زبیر سے بلا کر کہا کہ وہ حضرت حمزہ کی لاش: جو ٹکڑے ٹکڑے پڑی تھی، نہ دیکھنے پائیں۔ حضرت زبیر نے آ کر یہ کہا تو بولیں ہمیں اپنے بھائی کا ماجرا سنایا ۔ ==End of OCR for page 8==

Use Quizgecko on...
Browser
Browser